اتوار، 1 جنوری، 2023

 سالِ نو کا پیغام… نوجوانوں کے نام!!!

تحریر: عبدالصبور شاکر فاروقی


ابھی کل کی بات ہے2017ء کا سورج طلوع ہوا تھا۔ اپنے ساتھ امیدوں کے دیے، خواہشات کے جگنو، جینے کی امنگ، ترقی کی آرزو اور تبدیلی کی آس لایا تھا۔ آنکھوں نے کتنے ہی خواب پلکوں پہ سجائے تھے۔ امن و آشتی، سرمایہ و سکون، عزت و منزلت اور راحت و آرام کو گھر کے آنگن میں اترتے دیکھا تھا۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ… دسمبر کا آخری پہر ہے۔ یوں لگتا ہے رفتارِ زمانہ رک گئی ہے۔ ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں 2016ء کے آخر میں تھے۔ سکون بدستور معدوم ہے۔ عزت کسی اور کے گھر کی لونڈی ہے۔ آشتی کا جنازہ کاندھوں پر ہے۔جہالت کی وہ تاریکیاں مزید گہری ہو گئی ہیں جنہیں بھگانے کے لیے ارمان کی شمعیں جلائی گئی تھیں۔ دسمبر کی کہر آلود شامیں بتا رہی ہیں کہ قریب بعید ہو چکا اور جو بعید تھا وہ بدستور بعید تر ہے۔
انصاف کے جنگل میں ظلم و ستم کا مہیب رقص جاری ہے۔ غربت کے اسیر، سرمایہ داریت کی بھینٹ چڑھنے کو تیار ہیں۔ زیست کی لَو ٹمٹما رہی ہے۔ اندھیرا اتنا گہرا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دے رہا۔ پھر بھی امید کا دِیا روشن ہے۔ ستاروں پہ کمند ڈالنے والے کچھ لوگ ابھی زندہ ہیں۔ سالِ نو کا پیغام انہی کے نام ہے۔ ان نوجوانوں کے نام… جن کے سینے میں پوری امت کا درد ہے۔ جنہوں نے منافقت کی دہشت نگری میں آنکھ کھولی۔طعن و تشنیع کے دھماکوں کی لوریاں سنیں۔ دشمنی کے بارود کی بو سونگھتے لڑکپن گزارا۔ عدل و مساوات کے کٹے پھٹے لاشے دیکھتے جوان ہوئے۔ سالِ نو کا پیغام انہی جوانوں کے نام ہے ، جنہیں دوسروں کے کل کے لیے اپنا آج تج دینا ہے۔ جنہیں اپنی آرزوؤں، امنگوں اور چاہتوں کا خون کرنا ہے۔ بھائی بہنوں کی خاطر ، آئندہ نسلوں کی خاطر، وطنِ عزیز کی خاطر، امت محمدیہ کے روشن مستقبل کی خاطر…
آنے والا سال زبانِ حال سے کہہ رہا ہے تمہیں سنِ گذشتہ میں مطلوبہ اہداف کیوں نہ حاصل ہو سکے؟ ذرا اپنے ماضی پر نظر دوڑائیے۔ دیکھیے کہاں غلطی ہوئی ہے؟ کون سی لغزش ہوئی اور کتنی ہوئی؟ اس کے اسباب کیا تھے؟ دوسرے الفاظ میں اپنا محاسبہ کیجیے۔ ان اغلاط کی فہرست بنائیے۔ اور ابھی سے ٹھان لیجیے کہ اس مرتبہ یہ غلطیاں نہیں کریں گے۔ اپنے نفس کو جھنجوڑیں گے۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں گے۔ مایوسیاں بھگائیں گے۔سابقہ کردہ خطائیں نہیں دہرائیں گے۔ محتاط زندگی گزاریں گے۔ اخلاق بلند کریں گے۔ احساسِ ذمہ داری پیدا کریں گے۔ کچھ بننے کے قابل ہوں گے۔ تعلیم و تعلم اور ہنر و فن کے میدانوں میں اپنا لوہا منوائیں گے۔ کچھ ایسا کریں گے کہ اس سال میں پورے نہ سہی کچھ اہداف ضرور حاصل کر سکیں۔ نئے دوست نہ سہی، نئے دشمن نہیں بنائیں گے۔ اخوت، مساوات اور بھائی چارے کا علم بلند رکھیں گے۔
سالِ نو کہہ رہا ہے ’’اپنا ایک وژن بنائیں۔ خیالی دنیا میں کھونے کی بجائے ایک مقصد بنائیں، موقف اپنائیں، منزل چُنیں اور پھر اس کے حصول میں جُت جائیں۔ اپنا وژن ایک کاغذ پر لکھیں اور اس کاغذ کو ہمہ وقت اپنے پاس رکھیں۔ دن میں ایک دو مرتبہ اسے کھول کر پڑھیں۔ عزائم کو دہرائیں۔ اس طرح سبق تازہ اورمزاج میں استقلال رہے گا۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ بیدار رہے گا۔ ورنہ کچھ عرصے بعد قرطاسِ ذہنی سے مقصد اصلی محو ہو جائے گا اور منزل مزید دور ہوتی چلی جائے گی۔
اپنے وژن کے راستے میں آنے والی رکاوٹیں اور آسانیاں بھی مدنظر رہیں۔ اس طرح مسائل اور چیلنجز سے نمٹنے میں آسانی رہے گی۔اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی رہے کہ بعض مسائل و ادراک ’’سپیڈ بریکرز‘‘ کی مانند ہوتے ہیں۔ جنہیں پار کرنے کے لیے طاقت اور جوش کی نہیں ، سمجھ داری اور حوصلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور بعض مسائل راستے پر لگے سائن بورڈز کی طرح ہوتے ہیں کہ اگر ان کی طرف توجہ کی تو دنیا کی شاہراہ پر زندگی کی گاڑی کا حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔ منزل ہمیشہ کے لیے دور ہو سکتی ہے۔ اس لیے مسائل کی نوعیت سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر اسی نوعیت کے مطابق انہیں حل کیا جائے۔
وقت کی قدر کرنی ہوگی۔ نظام الاوقات ترتیب دینا ہوگا۔ پورا سال ایسے گزارنا ہوگا کہ کوئی بھی لمحہ ضائع نہ ہونے پائے۔ ورنہ لمحوں کی یہ خطا، صدیوںکو سزا دیتی ہے۔ اپنا وقت ضائع کرنا ہے اور نہ ہی کسی کا۔ ہر چیز کو اس کی حیثیت کے مطابق وقت دینا ہے۔ خاندان، دوست، رشتہ دار، تعلق دار، مقصد اور اپنی ذات ، سب کا خیال رکھنا ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو منزل کی جستجو میں بھٹکنا نہیں پڑے گا، وہ خود پکارے گی۔
نیز اپنے اہداف بھی متعین کرنے ہوں گے۔ اس سے حوصلے جواں اور عزائم بیدار رہتے ہیں۔ ورنہ مسلسل محنت انسان کو تھکا دیتی ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے راستے کے سنگِ میل۔ جنہیں دیکھ کر پتا چلتا جاتا ہے کہ ہمارا کتنا سفر طے ہو گیا اور کتنا باقی ہے؟ اگر سنگ میل نہ ہوں تو مسافر چلتا چلتا تھک جائے۔ اور جب مطلوبہ ہدف پورا ہو جائے تو اُس ذاتِ کریم کے آگے سربسجود ہونا بھی لازم ہے جس کی معیت اور نصرت نے یہاں تک پہنچایا۔ نیز اُن دوستوں کا شکریہ ادا کرنا بھی ضروری ہے جنہوں نے آپ کے راہ سے کانٹے چنے اور ہدف کا حصول ممکن بنایا۔ حدیث مبارکہ ہے من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ، جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے بڑوں سے مشورہ، ان کی دعائیں اور رب کریم کی نصرت ضروری امر ہوتا ہے۔تاکہ تجربات کی بے موقع بھٹیوں میں پگھلنا نہ پڑے اور صلاحیتیں بے مقصد خرچ نہ ہو جائیں۔‘‘

 نیا سال ہم سے کیا کہہ رہا ہے؟؟

تحریر: عبدالصبور شاکر فاروقی


ماتا ہری بیسویں صدی کی نام ور جاسوسہ تھی۔ پہلی جنگ عظیم کا تذکرہ جب بھی چھڑے، اس کا نام سرفہرست ہوتا ہے۔ جرمن اور اتحادی بیک وقت اسے اپنی ملازمہ سمجھتے تھے۔ اس نے دونوں جانب کے سینکڑوں فوجی اور اتحادیوں کا ایک اہم جاسوس مروایا، نیز جرمنی کی دو اہم آبدوزیںبھی غرق آب کروائیں۔ یہ 1876 ء کو ہالینڈ میں پیدا ہوئی۔ جوان ہوئی تو میکلوڈ نامی ایک سپاہی سے بیاہی گئی۔ سیلانی طبیعت کی وجہ سے شادی ناکام ہوئی تو رقص سیکھنے لگی۔ حسین تو تھی ہی، رقص نے اسے ایک بگولہ بنا دیا، پھر مشرقی رقص کی سان پر چڑھی تو کٹیلا خنجر بن گئی۔ اس کے چرچے اونچے درجے کی بزموں میں ہونے لگے۔ عام آدمی سے لے کر حکمران تک اور تاجر سے پیشہ ور سپاہی تک ہر شخص اس کی تمنا کرنے لگا۔
یہی مقبولیت اسے برلن لے گئی جہاں اس کی ملاقات ایک جرمن پولیس آفیسر سے ہوئی۔ جس نے اس کے حسن و شباب اور طرب و فن کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسے پیسوں کا لالچ دے کر جاسوسی کی صف میں لے آیا، تربیت دی اور ایچ 21 کا کوڈ نام دے کر پیرس بھیج دیا۔ یوں اس کی زندگی کا وہ بھیانک باب شروع ہوا جو اس کی جان کے خاتمے پر ہی بند ہو سکا۔
یہ انتہائی شاطر اور چالباز عورت تھی۔ شرابِ محبت لنڈھا کر بڑے بڑے لوگوں سے راز اگلوانا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ لیکن یہ جاسوسی میں مخلص نہیں تھی۔ اس کا مقصد دولت کمانا تھا، سو اس نے اپنا یہ مقصد پورا کیا۔ سن1904ء میں جب یہ فرانس آئی تو یہاں کے ایک پولیس افسر لاروس پر ڈورے ڈالے اور اسے اپنے جال میں پھنسا لیا۔ لیکن اہداف و مقاصد میں مخلص نہ ہونے اور طبیعت کی غیرسنجیدگی کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کی باتوں میں آ کر ’’ڈبل کراس‘‘ بن بیٹھی۔ دونوں جانب کے ممالک سے پیسہ کمانے کا لالچ اسے بہت مہنگا پڑا۔ کیونکہ دو کشتیوں کا مسافر ایک نہ ایک دن ضرور خمیازہ بھگتتا ہے۔ 1917ء میں اس کی حقیقت کھل گئی۔ یہ کسی وطن کے ساتھ مخلص نہ تھی، جو اس کی زیادہ قیمت لگاتا، یہ اسی کی ہو جاتی ۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام راز اور خفیہ فوجی راز بھی اسی پلڑے میں جا گرتے ۔ چنانچہ 13، اکتوبر 1917ء کی ایک روشن صبح کو اس کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا۔ اس کا بہترین دوست لاروس ہی اس کی موت کے پروانے پر دستخط کر کے لایا اور اسے گولیوں سے بھون دیا گیا۔ یہ جرمن حکومت اور جان چھڑکنے والے دوستوں کو پکارتی رہی لیکن اس کی حرکات و عادات کی بنا پر سب لوگ شتر مرغ کی مانند ریت میں سر دیے سوتے رہے۔
ماتا ہری کی زندگی آج کے نوجوانوں کے لئے ایک اہم سبق کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو لوگ واضح مقاصد و اہداف نہیں رکھتے ان کی حالت بہت بری ہوتی ہے۔ ایسے لوگ اپنی جان جیسی عظیم الشان چیز کی قربانی دے کر بھی کہیں نیک نامی سے یاد نہیں کیے جاتے۔ ناکامی و شکست ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ تاریخ کے گرداب میں پھنس کر یاد ماضی بن جاتے ہیں۔ مال و دولت کی ہوس آری بن کر حسن اخلاق، حب الوطنی اور احساس مروت کو کاٹ ڈالتی ہے۔ دل جمعی کا فقدان اتنی گہری کھائیوں میں دھکیل دیتا ہے، جہاں سے واپس لانا کسی کے بس میں نہیں رہتا۔ وقت ضائع کرنے کے چکر میں انسان خود گھن چکر بن کر رہ جاتا ہے۔ دھوکا، فراڈ اور منافقت ہمدموں کے دل سے ہمدردیاں نوچ ڈالتا ہے۔ اپنے پرائے ہو جاتے ہیں اور قریبی دور رہنا پسند کرتے ہیں۔ کڑی دھوپ میں تو اپنا سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے، بے گانے تو خیر بے گانے ہوتے ہیں۔
نیا سال ہمیں پیغام دے رہا ہے، اگر تم میرا درست استعمال نہیں کرو گے تو کل تمہیں کوئی اور استعمال کر لے گا۔ کامیابی و کامرانی کی حیثیت سراب سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی۔ ابھی سے چھوٹے چھوٹے اہداف طے کرو، پھر انہیں پانے کے لئے صبح شام، دن رات ایک کر دو۔ ناکامی کا لفظ اپنی ڈکشنری سے نکال دو۔ منزلیں تمہاری انتظار میں ہیں۔ ورنہ ماتا ہری کی طرح کف افسوس ملنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ؎
محنت سے مل گیا جو سفینے کے بیچ تھا
دریائے عطر میرے پسینے کے بیچ تھا
ہمدردی و خلوص کا بیج کاشت کرو گے تو جواباً بھی خلوص و ہمدردی کے پھول ملیں گے۔ ورنہ کانٹوں کے تاجروں کی بوریوں سے گلاب نہیں ملا کرتے۔ سچائی کا ذائقہ کڑوا ہونے کے باوجود صحت افزا ہوتا ہے۔ خوش اخلاقی اہل جہاں کی نظر میں محبوب بنا دیتی ہے۔ خدمت خلق دوسرے دلوں کی دھڑکن بنا دیتی ہے۔ جبکہ خود غرض شخص سے ہر کوئی پناہ مانگتا ہے۔ بے مروت کے دوست کم اور دشمن وافر مقدار میں پیدا ہو جاتے ہیں۔
ماتا ہری نے اپنی جوانی و حسن کو دائمی سمجھ لیا تھا، لیکن جب اس جنس کی شام ہونے لگی،تو قیمت بھی گر گئی۔ اب وہ اہل جہاں کی نظر میں چلے ہوئے کارتوس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھیتی تھی۔نیا سال پیغام دے رہا ہے کہ ا اس سے پہلے کہ ہماری طاقت و جوانی ڈھلنے لگے ، ہمیں اپنے سارے کام سمیٹ لینے چاہئیں۔ خواہ ہم دنیا کما نا چاہ رہے ہیں یا آخرت؟ ہر صورت میں ہمیں آج کا کام آج اور ابھی کرنا ہے۔ ورنہ وقت کسی کا نہیں ہوتا۔ کل کو کف افسوس ملنے سے بہتر ہے آج ہم اپنی ہتھیلیاں محنت کے ذریعے گرم رکھیں۔ سچ کہا علامہ مرحوم نے ؎
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اگر اس سال بھی اپنا طرز زندگی، اپنے قول و فعل اور علم و عمل میں تبدیلی نہ لا سکے تو سمجھیں ہم بے مقصد زندگی جی رہے ہیں اور ایسی زندگی کا کیا فائدہ؟؟؟
٭٭٭

جمعہ، 30 دسمبر، 2022

عالم اسلام پر حجاب کے اثرات

تحریر: عبدالصبور شاکر فاروقی


 حجاب عربی زبان کا چار حرفی لفظ ہے جسے اردو میں پردہ کہتے ہیں۔ اس کی شکل مختلف علاقوں اور زمانوں کے حساب سے مختلف رہی ہے۔ کہیں برقع پہنا جاتا ہے اور کہیں صرف سر ڈھانپنے کے لیے دوپٹہ یا اسکارف، کہیں جلباب یا عبایا پہنا جاتا ہے اور کہیں ایک بڑی چادر سے پورا جسم ڈھک لیا جاتا ہے۔ اسلام نے عورت کو فرائض تفویض کرتے وقت حجاب کو سب سے مقدم رکھا۔  قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اے آدم علیہ السلام کے بیٹو اور بیٹیو! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے جسم کے ان حصوں کو چھپا سکے جن کا کھولنا برا ہے۔ (الاعراف:26)

 نیز فرمایا:

" اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اور اپنی سجاوٹ کسی پر ظاہر نہ کریں۔ سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں۔اور اپنی سجاوٹ اور کسی پر ظاہر نہ کریں۔ (النور:31)

 یہی وجہ ہے کہ تقریباً سوا چودہ سو سال سے اب تک مسلمانوں کی اکثریت حجاب کی نہ صرف قائل رہی ہے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی رہی ہے۔ پھر صرف مسلمان ہی نہیں، دوسرے معزز معاشروں اور مذاہب میں بھی پردہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ہندو مذہب میں اس کی اتنی پابندی تھی کہ برہمن خاندانوں کی خواتین اپنے شوہروں سے پردہ کیا کرتیں۔ یہودی اور عیسائی مذہب بھی خواتین کو حدود میں رہنے کی تلقین کرتے۔ لیکن تہذیب جدید کے سیلاب میں بعض پرانی رسومات و اقدار خس و خاشاک کی طرح بہہ نکلے جن میں پردہ سر فہرست ہے۔ خواتین کو پردے سے باہر نکالنا مغرب کی معاشی و اقتصادی مجبوری تھی کہ خانہ جنگی کے سبب مردوں کی اکثریت ہلاک یا معذور ہو گئی۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے گھریلو خواتین کو میدان میں اتارا گیا۔ اس مقصد کے لیے آزادی، مساوات اور ترقی جیسے خوش نما نعرے لگائے گئے۔ انہیں بہت سے سبز باغ دکھائے گئے۔ جس کا مغرب کو وقتی طور پر کچھ فائدہ بھی ہوا کہ ان کی معیشت کی چکی چل پڑی۔ لیکن انہیں اس کے نتیجے میں جن مضمرات کا سامنا کرنا پڑا، اس کا حل مغربی مفکرین کے پاس بالکل بھی نہیں ہے۔ بڑے بڑے دانش ور یہ گتھی سلجھانے بیٹھے ہیں لیکن انہیں کوئی سرا نہیں مل رہا۔

 الحمد للہ عالم اسلام ان خطرات و مضمرات سے فی الحال محفوظ ہے لیکن جس تیزی سے جدت پسندی اسے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے خطرہ ہے یہ بھی مغرب کے اس حسین پھندے میں جا پھنسے گا۔ مغربی مفکرین کے مطابق سب سے زیادہ محفوظ حسب نسب مسلمان خواتین کا ہوتا ہے۔ پردے کے سبب وہ مردوں کی ہوس زدہ نظروں سے محفوظ رہتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ریپ جیسی لعنت اور ظلم سے محفوظ رہتی ہیں۔ جب کہ عدل و انصاف کے ٹھیکے دار امریکہ کو ریپ کیسز کی شرح میں سب سے اوپر رکھا جاتا ہے کہ وہاں ہر چھ میں سے ایک خاتون اس ظلم کا شکار ہو چکی ہے۔ یاد رہے!!! یہ کیسز زنا بالجبر کے ہیں اور جن کی رپورٹ ہوئی ہے۔ جو رپورٹ کے بغیر رہ گئے یا بالرضا ہوئے، ان کا شمار ہی نہیں ہے۔ ریپ کیسز میں سرفہرست دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے جہاں حکومتی رپورٹ کے مطابق ہر سال پچاسی ہزار خواتین ریپ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ تیسرے نمبر پر فرانس ہے جو حجاب پر پابندی لگانے میں خونی حدوں کو چھو رہا ہے ۔ یہاں سال میں پچھتر ہزار خواتین ریپ کی شکایت لے کر آتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ شرح دس فی صد ہے باقی نوے فیصد خواتین شرم یا دیگر وجوہات کی بنا پر کیس رجسٹر ہی نہیں کرواتیں۔ اس کے بعد بالترتیب جرمنی، کینیڈا، بھارت، ایتھوپیا اور سری لنکا آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان ٹاپ ایٹ ممالک میں کوئی بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ اردو زبان میں ریپسٹ ممالک کا ڈیٹا نکالنے کی کوشش کریں گے تو رزلٹ میں مسلمان ممالک کو رگیدا گیا ہوتا ہے۔

 حیرت بلکہ افسوس کی بات ہے کہ اس معاملے میں مسلمان ممالک کا لہجہ شرم ناک حد تک معذرت خواہانہ ہے۔ حالانکہ ہمیں چاہیے تھا، ان ممالک سے ایسی آزادی، مساوات اور ترقی کے نتائج کا مواخذہ کرتے، الٹا دفاعی پوزیشن اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ جس کی تازہ ترین دو مثالیں پاکستان میں سامنے آئیں۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے ریپ وغیرہ کی روک تھام کے لیے خواتین کو مناسب لباس پہننے کی تلقین کی جو قرآن و سنت کے مطابق تھی۔ لیکن اس پر اتنی لے دے ہوئی کہ ان کے دوستوں کو بار بار وضاحتیں دینی پڑیں۔ دوسری مثال پی ٹی وی کی بعض خواتین اینکرز کا عمل تھا جنہوں نے اپنی مرضی سے حجاب اوڑھ کر سکرین پر آنا پسند کیا تو آزادی کے متوالوں نے بھیانک الزامات، ایسے بھونڈے طریقے سے لگائے کہ وفاقی وزیر فواد چوہدری کو آکر وضاحت دینی پڑی کہ حکومت وقت کا اس قضیے میں کوئی کردار نہیں ہے، خواتین کا ذاتی طرز عمل ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ الزامات عائد کرنے والوں سے پوچھا جاتا "کہاں ہے تمہارا نعرہ میرا جسم میری مرضی...؟؟؟ جس کے مطابق کوئی اپنی مرضی سے حجاب پہننا چاہے تو تم اسے روک نہیں سکتے۔ نیز ہمارا مذہب، معاشرہ اور وطن عزیز کا قانون اجازت بلکہ حکم دیتا ہے کہ نامحرم خواتین اپنے جسموں کو ڈھک کر رکھیں۔ جس میں انہیں عبادت کے لیے بھی گھر کے اندرونی حصے منتخب کرنے کا حکم دیا گیا ہے، کیسے سرعام اپنے جسم کی نمائش کر سکتی ہیں؟

 حجاب کی بنا پر مسلم خواتین دور سے پہچانی جاتی ہیں۔ چنانچہ ہر جگہ انہیں عیسائی مذہبی راہباؤں جتنا احترام دیا جاتا ہے کہ وہ بھی حجاب میں رہنا پسند کرتی ہیں۔ یہ حجاب ہی کی برکت ہے کہ مسلم ممالک میں ابھی یہ نوبت نہیں آئی کہ کاغذات سے والد کا خانہ ختم کرنا پڑے۔ یہاں اب بھی خواتین کا احترام باقی ہے۔ جزوی طور پر اگر کہیں ان سے زیادتی ہوتی ہے تو وہ بڑی خبر بن جاتی ہے۔ پھر گہرائی میں جا کر دیکھا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے یہ زیادتی بھی نہ ہوتی اگر خاتون خود اسلامی اصولوں پر چلتی یا اسے موقع فراہم نہ کرتی۔ یہاں "می ٹو" جیسے شرمناک ٹرینڈ میں شرکت کرنے والی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ جو ہیں وہ بھی مخصوص پس منظر رکھتی ہیں۔ ان ممالک میں خواتین کو اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے تنظیمیں بنانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں اسلام نے پہلے سے مقرر کر رکھی ہیں۔ غرض پانچ گز کا یہ کپڑا مسلم ممالک اور خواتین کے لیے کسی نعمت عظمٰی سے کم نہیں ہے۔ لہٰذا بلاجھجک اور بغیر کسی خوف ملامت کے، فوراً اسے روز مرہ زندگی کا حصہ بنالیں۔ اس بارے میں ہونے والے اعتراضات پر کان مت دھریں کیوں کہ

عرفی تو مایندیش زغوغائے رقیباں

آواز سگاں کم نکند رزق گدا را

* * *

منگل، 31 جنوری، 2017

Zavia e nigah زاویہ نگاہ


"زاویہ نگاہ"

تحریر :عبدالصبور شاکر

ظہیر عباس میرا کلاس فیلو تھا. پوری کلاس میں اگر مجھے کسی پر رشک آتا تھا تو وہ یہی شخص تھا.
ہر امتحان میں فرسٹ آنا اور فرفر انگریزی بولنا اس کا مشغلہ تھا.
لیکن اس میں ایک خامی بھی تھی. کہ
یہ ایک عجیب انسان تھا. یوں کہہ سکتے ہیں کہ ذہانت اور بے وقوفی کا حسین امتزاج تھا

اتنا ذہین ہونے کے باوجود کبھی کبھی ایسی بات کر دیتا کہ سننے والوں کو اس کی عقل کے صحیح ہونے پر شک پڑنے لگتا.

ایک مرتبہ اپنے ساتھی طلباء سے پوچھنے لگا :
"دوستو! اگر آپ کی بہن آپ کے سامنے کپڑے اتار رہی ہو تو آپ کیا کریں گے؟ اسے ماریں گے، یا اس کی مدد کریں گے؟ "
تمام لڑکے اس کا بے وقوفانہ سوال سن کر ہنسنے لگے.

جماعت میں ہوتا شور سن کر ایک استاذ صاحب ادھر آ گئے.
اور استفسار کیا تو لڑکوں نے ظہیر کی بے وقوفی کی داستان سنا دی

لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب استاد صاحب نے بھی اسی کی طرف داری کرتے ہوئے فرمایا کہ
" واقعی! ظہیر کی بات درست ہے. تمہیں اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہیے "
ساتھ ہی انہوں نے آخر میں بیٹھے ایک لڑکے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "تم بتاؤ"

لڑکے نے کھڑے ہو کر ادھر ادھر دیکھا اور جواب دیا کہ "سر! اگر میری بہن میرے سامنے ایسی حرکت کرنے کی کوشش کرے گی تو میں اسے جان سے مار دوں گا "

پھر کئی لڑکوں سے پوچھا گیا تو سب کا جواب اسی جواب سے ملتا جلتا تھا

پھر استاذ صاحب نے ظہیر کو دعوت دی کہ تم خود اس کے بارے میں بتاؤ.

ظہیر کا جواب ہم جماعتوں سے مختلف تھا
کہنے لگا "سر! میں اپنی بہن کی مدد کروں گا ".
کلاس میں ایک بار پھر قہقہہ گونجا لیکن استاذ صاحب سنجیدہ تھے.
جسے دیکھ کر کلاس میں خاموشی چھا گئی.

"ظہیر درست کہہ رہا ہے "
استاذ صاحب نے جواب دیا

"لیکن سر ہمیں ظہیر اور اپنے جواب میں فرق تو سمجھا دیں پلیز "
ایک لڑکے نے درخواست کی.

استاذ صاحب نے فرمایا :

" بیٹا! بہت زیادہ فرق ہے.
سوچ کا فرق، طبیعت کا فرق، میلان کا فرق اور مزاج کا فرق.
پہلا جواب منفی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، ایسا جواب دینے والے معاشرے کے وہ افراد ہیں کہ اگر ان کے سامنے میٹھا حلوہ رکھ کر اس میں ایک دانہ سیاہ مرچ کا ڈال دیا جائے تو ہمیشہ اسی سیاہ مرچ کا تذکرہ کرتے نظر آئیں گے، ان کی نظر اس میٹھے سے بھری پلیٹ کی کی جانب نہیں ہوگی.
ایسی سوچ اس مکھی کے ساتھ مشابہت رکھتی ہے جو سارے تندرست بدن کو چھوڑ کر صرف زخم پر جا بیٹھتی ہے.

یہ سوچ انسانی معاشرے کو بے انصافی اور منافقت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا دھکیلتی ہے.
انسان کو آس پڑوس میں ہونے والے تعمیری امور نظر نہیں آتے بلکہ اس کا زاویہ نگاہ "ویک پوائنٹس" پر جا ٹھہرتا ہے.
انسان اپنی غلطیوں پر غور کرنے کی بجائے دوسروں کے عیوب کی چھان پھٹک میں لگ جاتا ہے،
پھر اسے راہ میں پڑے کنکر میں بھی گورنمنٹ کی خرابی نظر آ جاتی ہے جبکہ اپنے گھر کے سامنے بنے ذاتی سپیڈ بریکر میں بھی لوگوں کی بھلائی معلوم ہوتی ہے.

اسے اپنے علاوہ ہر بندہ کام چور اور ہر صاحبِ فن ریاکار نظر آتا ہے.

اس کی آنکھوں پر انا پرستی کی پٹی بندھ جاتی ہے
جو اس سے اس کے اپنے عیوب چھپا دیتی ہے اور دوسروں کے یوں ظاہر کر دیتی ہے جیسے خفیہ کیمرے دن رات کی رپورٹ دیا کرتے ہیں.

یہ سوچ انسان کو بداعتمادی کا مریض بنا دیتی ہے.

ہمچوں ما دیگرے نیست
اس کا ماٹو بن جاتا ہے.

جبکہ دوسرا جواب مثبت سوچ کا پتہ دے رہا ہے، ایسی سوچ والے افراد ہی دنیا میں ترقی کرتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس دوسروں پر نکتہ چینی کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا،
یہی لوگ کامیابی کے زینے بڑی تیزی سے طے کرتے ہیں."

لیکن سر! ظہیر کا جواب درست کیسے ہے؟ "
ایک طالب علم نے ڈرتے ڈرتے پوچھا

" بیٹا! یہ تو بڑی آسان سی بات ہے. ظہیر کی بہن نے کپڑے سکھانے کے لئے تار پر ڈالے ہوئے تھے، انہیں اس نے ظہیر کے سامنے اتارنا شروع کیا تو ظہیر بھی اس کی مدد کرنے لگا.

بس یہی میں کہتا ہوں اپنے دامن کو بدگمانی، بداعتمادی اور منفی سوچ سے بچاؤ، ورنہ زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاؤ گے، تمہارا بیشتر وقت فضول تفکرات میں بیت جائے گا اور مثبت امور پر سوچنے کا موقع پر لگا کر اڑ جائے گا. "

درج بالا ویڈیو یہی درس دے رہی ہے، سفید تختے پر لگے ایک سیاہ نقطے نے منفی سوچ حامل طلباء کی تمام تر توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی
جبکہ مثبت سوچ کے حامل افراد نے ایک باریک نقطے کی جانب کوئی توجہ ہی نہیں کی تھی

جب تک نہ تھی اپنے عیبوں پر نظر، رہا دیکھتا آوروں کے عیب وہنر

جب پڑی اپنی برائیوں پہ نظر، تو نظر میں کوئی برا نہ رہا

Children and our responsibilities احساس زیاں


"احساس زیاں "

تحریر : عبدالصبور شاکر


"کدھر سے آنا ہوا؟ "
غصے میں کھولتے باپ نے جب رات گئے آنے والے اپنے جوان بیٹے سے پوچھا تو بیٹے نے دوستوں کے ساتھ پڑھائی کا بہانہ کر دیا.
جب کئی راتوں تک باپ بیٹے کے مابین اس سے ملتا جلتا مکالمہ چلا تو اس کا نتیجہ نہایت خوفناک صورت میں برآمد ہوا.

اگلی صبح جب ماں اپنے بیٹے کو جگانے کمرے میں داخل ہوئی تو اس کی چیخیں نکل گئیں

کمرے میں اس کے بیٹے کی جگہ اس کی لاش پڑی تھی، ساتھ ہی ایک رقعہ رکھا تھا جو اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ صاحبزادے نے روز کی جھک جھک سے تنگ آ کر خود کشی کر لی ہے

ایک رسالے میں جب یہ واقعہ پڑھا تو ذہن نجانے کن خیالوں میں جا نکلا؟

زندگی چند امور کا نام ہے. اگر ان میں سے کسی کو بھی چھوڑنے کی کوشش کی جائے تو یہ پھیکے پن کا شکار ہو جاتی ہے
اسی طرح زندگی میں چند رشتے ایسے ہیں کہ اگر انہیں نظر انداز کرنے کی کوشش کی جائے تو نہ صرف زندگی کا مزہ پھیکا پڑ جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ رشتوں کا رنگ بھی اڑ جاتا ہے جس کا نتیجہ کسی نہ کسی موڑ پر تنہائی کی صورت میں برآمد ہوتا ہے.

مغربی تقلید کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ہمارا معاشرہ رشتوں کی رنگینی سے لطف اندوز ہونا بھولتا جا رہا ہے، والدین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے انہیں وقت نہیں دے پاتے، جبکہ بچے اپنے دوستوں کی وجہ سے والدین سے دور ہوتے جا رہے ہیں.

دونوں فریقوں کے پاس وقت کی انتہائی کمی ہے، اور یہ خلیج اتنی تیزی سے وسیع ہوتی جا رہی ہے کہ اگر بروقت اس کے تدارک کی کوشش نہ کی گئی تو بعید نہیں کچھ عرصے بعد بچے اپنے والدین کو صرف ویک اینڈ پر ہی مل پائیں گے.
یا پھر خدا نخواستہ وہ دور آ جائے کہ بچے اپنے مستقبل کے فیصلے خود کرنے لگ جائیں اور ہماری ملی، قومی، معاشرتی، اور اسلامی روایات یوں دب جائیں جیسے یورپ و اہل مغرب کی روایات سائنس کی ترقی میں کہیں ڈوب چکی ہیں.

صرف یہی نہیں کہ والدین کی مصروفیات کی بنا پر ان کے لئے اپنے بچوں کی خاطر وقت نکالنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس بلائے ناگہانی نے اس کے ضمن میں کئی دیگر مسائل کو بھی جنم دے دیا ہے
مثلاً :
🔷بچے اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے ایسے ایسے بکھیڑوں میں پڑ رہے ہیں جن کے بارے میں محض سوچنا بھی چند سال قبل دشوار تھا.
گذشتہ دنوں اپنی معلمہ کے عشق میں مبتلا ساتویں جماعت کے بچے کی خودکشی اس کی بدترین مثال ہے
یہ محض غلط تربیت کا نتیجہ ہے، اور بچے کی اس جان لیوا غلطی میں جہاں میڈیا، ماحول اور دوست انوالو ہیں وہیں اس کی موت کے ذمہ دار والدین بھی ہیں، جو اتنی بات پر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں کہ "ہماری ساری محنت انہی کا مستقبل سنوارنے ہی کے لیے تو ہے"

یا ان کا یوں کہنا کہ
"اب ہمارے بچے میچور ہو گئے ہیں، انہیں سمجھانے کی اب ہمیں کوئی ضرورت نہیں "

🔷ایک اور چیز جس نے اسی مسئلے سے جنم لیا ہے وہ ہے، اپنے مذہب و نظریات اور اقدار سے دوری،
سکول میں مذہب کی تعلیم آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ہے اور گھر کا ماحول اسلامی نہیں ہے، نہلے پہ دہلا یہ کہ والدین اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پاتے، نتیجتاً بچے انتہائی بنیادی اسلامی تعلیمات بھی کورے ہوتے جا رہے ہیں

🔷والدین کی توجہ نہ ہونے کی بنا پر بچے اپنے قریبی رشتوں کی پہچان بھولتے جا رہے ہیں، انہیں یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ والدہ کے بعد کون سا رشتہ اس کے لیے زیادہ اہم ہے؟ ، اور دیگر رشتہ داروں کے کون سے حقوق اس پر لازم ہیں؟

🔷سارا دن اپنے ملازمین یا گلی محلہ کے آوارہ بچوں کی صحبت، بچوں پر خوب رنگ چڑھاتی ہے. جس کے نتیجے میں بچوں کے وہ اخلاقی تربیت ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ،
گالیاں دینا، گلی محلے کے عزت داروں پر آوازے کسنا انہیں اپنا مشغلہ معلوم ہوتا ہے.

🔷وقت گزاری کے لیے بچے کارٹون اور ویڈیو گیمز کا سہارا لیتے ہیں جو کئی ناجائز امور کا مجموعہ ہوتے ہیں،
بچوں کا لاشعور ان کے بیک ڈور پیغام کو غیر محسوس انداز میں قبول کر لیتا ہے، جس کا نتیجہ وقتا فوقتاً قتل وغارت، ڈاکہ زنی، خود کشی اور مار دھاڑ کی صورت میں نکلتا رہتا ہے.
اور ہم اے سی کی ٹھنڈی یخ بستہ ہواؤں میں بیٹھے حیرانگی کے ساتھ کہہ رہے ہوتے ہیں،
"پتہ نہیں! ان بچوں کو کیا ہو گیا ہے؟ ہمارے دور میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا"


غور کیا جائے تو اس سے ملتے جلتے ہزاروں مسائل ایسے ہیں جو ہماری اس بے اعتدالی کے سبب، نہ صرف دن بدن پیدا ہوتے جا رہے ہیں بلکہ ان میں روز افزوں خوفناک ترقی بھی ہو رہی ہے

وقت کسی کو مہلت نہیں دیتا، اگر ہم نے اس مسئلہ پر قابو نہ پایا تو یقین کیجئے چند سالوں بعد ہمیں بھی اہل مغرب کی طرح اپنی اولاد سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں.

ہماری آنے والی نسلیں ہمارے بھی آخری ایام اولڈ ہومز میں گزروائیں گی،

شادیاں اپنی مرضی سے کریں گی اور اپنے والدین کی خدمت کرنے پر ان سے معاوضہ طلب کریں گی.

دوستو! اس بارے میں ہمیں اجتماعی شعور بیدار کرنا ہوگا

بچوں کی اخلاقی تربیت پر بھر پور توجہ دینا ہوگی

انہیں انٹرنیٹ اور ویڈیو گیمز کی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں لانا ہو گا

اپنے وقت میں سے ایک حصہ ان کے لئے مختص کرنا ہو گا تاکہ وہ ہمارے ساتھ مانوس ہوں، اجنبیت ختم ہو، اور وہ اپنی باتیں، اپنے مسائل ہمارے ساتھ شئر کر سکیں.

وہ ہمیں اپنا ہمدرد سمجھیں نہ کہ محض سرپرست، جو ان کے لئے سرمایہ مہیا کرتا ہے

یاد رکھیں!
اگر ہم نے یہ نادر موقع گنوا دیا تو پھر ہمارے ہاتھ نہیں آئے گا،
کیونکہ

خود اپنی ہی جڑوں پر ہی چلاتی ہے درانتی
بربادی احساس نمو مانگ رہی ہے

جمعرات، 30 اپریل، 2015

عبدا  لصبور شاکرؔ

کمسنی کا نکاح
قرب قیامت ، اپنے ساتھ کئی ایسے مسائل کو جمع کر رہی ہے ، جنہیں آج سے کچھ عرصہ قبل متفق علیہ سمجھا جاتا تھا۔آجکل نام نہاد انسانی حقوق یا حقوقِ نسواں کے عنوان سے وقتافوقتا ایسے خالص علمی وتحقیقی،معاشرتی وتمدنی موضوعات کو انتہائی بے ڈھنگے اورجاہلانہ انداز سے چھیڑا اوراچھالا جاتاہے کہ خالی الذہن اورعام آدمی ان کے دام تزویر میں آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔تہذیبِ مغرب کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھنے اوراس کو اندر سے جھانکنے والے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ اُس معاشرے میں انسانیت اورخاص طور صنفِ نازک کس کرب والم میں مبتلاء اورسسک رہی ہے،اس کے باوجود وہ لوگ سال میں ایک ایک دن خاص موضوعات(جیسے مدر ڈے،خواتین کا عالمی دن،آبادی کا عالمی دن،ماں اوربچے کا عالمی دن وغیرہ) کیلئے مختص کرکے انسانیت کے چیمپین بننے کی کوشش کرتے ہیںہمارے ملک کا ایک مخصوص طبقہ بھی جانے انجانے میں انہی خرافات میں پڑ کر نہ صرف یہ بھول جاتے ہیں اسلام نے انسانیت کو کس قدر مساوات پر مبنی اور آفاقی حقوق عطاء کئے ہیںبلکہ بساوقات انہی نام نہادانسانی حقوق کی آڑ میں شرعی مسلّمات پر بھی احمقانہ وجاہلانہ کج بحثیاں شروع کردی جاتی ہیں۔حال ہی میں خواتین کے عالمی دن کے موقعہ پر پنجاب اسمبلی نے کچھ قانون سازیاں کیں جن ایک شق کم عمری میں نکاح کی ممانعت بھی شامل ہے جس کی روسے سولہ سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح کرنے والے والدین اورنکاح خواںقیدوجرمانہ کے مستحق ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ اس قسم کے مسائل پر بحث کرنے اورشرعی نقطہ نظر واضح کرنے کیلئے ہمارے ملک میں ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘کے نام سے ایک مستقل وفاقی ادارہ ہے اور قانون ساز اسمبلیاں اس بات کی پابند ہیںکہ شرعی مسائل میں اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف رجوع کریں اور اس کی دی ہوئی سفارشات کو عملی جامہ پہنائیں۔لیکن بہت سے دیگراداروں کی طرح اس ادارے کی حیثیت بھی نشتن ،گفتن اور برخاستن سے بڑھ کر نہیں ہے۔لہذا اگر تو اس قسم کے قوانین اس مغربی معاشرے کی تقلید میں پاس کئے جارہے ہیں جہاں سولہ سال سے کم عمر کا نکاح تو قابلِ سزاجرم ہے اور اگر پندرہ سالہ لڑکی حرامکاری میں مرتکب ہوکر ماں بن جائے تو اسے مکمل ’’انسانی آزادی‘‘اور’’انسانی حقوق ‘‘حاصل ہیں،پھر تو اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگراربابِ حل وعقد واقعتا بعض معاشرتی مسائل اورخرابیوں کو سامنے رکھ کر ان کا سدِ باب کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس قسم کی قانون سازی سے پہلے قرآن وسنت کی روشنی میں اس قسم کے مسائل کی اصل نوعیت کو واضح کرنا ضروری ہے۔
دراصل یہ دو علیحدہ علیحدہ مسئلے ہیں، یعنی
۱۔سولہ سے کم عمر بچی کا نکاح 
۲۔ سولہ سال سے کم عمر بچی کی رخصتی
گزارش ہے کہ پہلی صورت میں تو کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ سب علماء کا اجماع ہے کہ سولہ سال سے کم عمر بچی کا نکاح منعقد ہو سکتا ہے۔(رحمۃ الامہ: ۲۶۳،۲۶۵) اور اس کی دلیل قرآن مجید کی آیت مبارکہ واللآئی لم یحضن (سورۃ الطلاق:۴)ہے۔یعنی ’’اسی طرح وہ نابالغ لڑکیاں جنہیں ابھی ماہواری آنی شروع ہی نہیں ہوئی، ان کی عدت بھی تین مہینے ہوگی۔ گویا کم سنی کا نکاح قرآن پاک کی روشنی میں معیوب نہیں ہے،اگریہ معیوب چیز ہوتی تو اللہ تعالی اس کا حکم ہی بیان نہ فرماتے۔
اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’فلما بین اللہ تعالی عدۃ النساء اللاتی یحضن ۔۔۔۔۔ قام رجل آخر فقال ارأیت یا رسول اللہ فی اللآئی لم یحضن للصغر ماعدتھن فنزل لم یحضن من الصغر فعدتھن ایضاثلاثۃ اشھر‘‘ جب اللہ تعالی نے حائضہ عورتوں کی عدت بیان فرمائی تو ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور عرض کی یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ کا اس عورت کی عدت بارے کیا خیال ہے جسے کم سنی کی وجہ سے حیض نہ آیا ہو تو یہ آیت مبارکہ واللآئی لم یحضن  نازل ہوئی۔کہ جن عورتوں کو صغر سنی کی وجہ سے حیض نہ آئے تو ان کی عدت بھی تین مہینے ہے۔
قرآن مجید کے علاوہ حدیث مبارکہ سے بھی اسی بات کی تائید ہوتی ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دو باب باندھے ہیں ،ایک باب ’’باب تزویج الصغار من الکبار‘‘ ہے یعنی کم سن لڑکی کا بڑے آدمی سے نکاح کرناجس میں یہ حدیث مبارکہ نقل کی ہے۔ ’’عن عروۃ رضی اللّٰہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم خطب عائشۃ الی ابی بکر ، فقال لہ ابوبکر: انما انا اخوک، فقال انت اخی فی دین اللہ وکتابہ وھی لی حلال‘‘ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ مانگا تو انہوں نے عرض کی کہ میں تو آپ کا بھائی ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو میرا دین میں بھائی ہے ، اور عائشہ میرے لیے حلال ہے‘‘۔ اور سب جانتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اس وقت صرف چھ سال تھی۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرے باب کا عنوان یہ رکھا ہے ’’باب انکاح الرجل ولدہ الصغار‘‘ (آدمی کا اپنی کمسن اولاد کا نکاح کردینا)،  دلیل کے طور پر یہ آیت مبارکہ لائے ہیں۔ واللآئی لم یحضن: فجعل عدتھا ثلثۃ اشھر قبل البلوغ۔ اس باب کے تحت یہ حدیث مبارکہ لائے ہیں۔ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم تزوجھا وھی بنت ست سنین۔ وادخلت علیہ وھی بنت تسع۔ ومکثت عندہ تسعا۔‘‘ (صحیح بخاری ۷۷۱؍۲)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے عقد فرمایاجب وہ چھ سال کی تھیں، اور ان کی رخصتی ہوئی جب کہ وہ نو سال کی تھیں، اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نو سال رہیں۔امام بخاریؒ کے قائم کردہ مذکورہ دونوں باب یہی بتلاتے ہیں کم سنی میں نکاح کی اجازت ہے۔ 
اس حدیث مبارکہ کے ذیل میں علامہ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں۔ ’’مہلب فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ باپ کے لیے جائز ہے کہ اپنی چھوٹی کنواری بیٹی کا عقد کر دے۔ اگرچہ وہ وظیفہ زوجیت کے لائق نہ ہو۔ ‘‘(حاشیہ بخاری ص ۷۷۱ ج ۲) معلوم ہوا کہ اس واقعے کی حقیقت پر امت کا اجماع ہے۔نیز سولہ سال سے کم عمر بچی کا نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔ نیز فقہاء کرام نے خیار بلوغ کے عنوان پر باقاعدہ ابواب باندھے ہیں اور لمبی لمبی ابحاث ذکر کی ہیں اگر ہم کم عمر ی کے نکاح کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں تو فقہاء کرام کی ان تمام باتوں کو لغو ماننا پڑے گا جو کہ خود ایک لغو بات ہوگی۔
اب آتے ہیں دوسرے مسئلہ کی طرف کہ آیا سولہ سال سے کم عمر بچی کی رخصتی شرعا جائز ہے یا نہیں؟توظاہر ہے رخصتی کے معاملہ میں سن بلوغ کا اعتبار کیا جاسکتاہے ، معاشرتی وطبی پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے اگر رخصتی یا نکاح مع رخصتی کیلئے حکومت وقت کی طرف اگر عمرکی کوئی قید مقرر کردی جائے اس میں تو بظاہر کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا ،لیکن کم سنی میں مطلقا نکاح کی ممانعت یہ واقعتا ایک قابل غور مسئلہ  ہے جس میں کسی حتمی قانون سازی سے پہلے محققین سے رائے لینا ضروری ہے۔کیونکہ شریعت نے جس بات کو عام رکھا ہو ہم اپنی طرف سے اس کو مقید نہیں کرسکتے۔
ذیل میں ہم کچھ مشہور نکاح لکھتے ہیں جو کم سنی کی عمر میں طے پائے۔
٭حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی امامہ کا نکاح بچپن ہی میں سلمہ بن ابی سلیمہ سے کر دیا تھا۔
٭سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح بچپن ہی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کر دیا تھا۔
٭حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کی پانچ سالہ بیٹی کا نکاح ایک لڑکے سے کر دیا تھا۔
٭حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ نے اپنی کم سن بیٹی کا نکاح مسیب بن نخیہ سے کر دیا تھا۔(بحوالہ سیرت امہات المؤمنین)
اس کے ساتھ ساتھ ایک فائدے کی بات جو صدرمفتی دارالعلوم کراچی مفتی عبدالرؤف سکھرو ی صاحب دام ظلہ نے نقل فرمائی ہے کہ: ’’جب حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ساڑھے پندرہ برس کی ہوئیں، تو سب سے پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے نکاح کا پیغام دیا، اس کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے نکاح کا پیغام دیا ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے عذر فرمادیا اور معذرت کر لی کہ میری بیٹی کی عمر کم اور تمہاری عمر زیادہ ہے۔‘‘(شادی بیاہ کے اسلامی احکام)