عالم اسلام پر حجاب کے اثرات
تحریر: عبدالصبور شاکر فاروقی
حجاب عربی زبان کا چار حرفی لفظ ہے جسے اردو میں پردہ کہتے
ہیں۔ اس کی شکل مختلف علاقوں اور زمانوں کے حساب سے مختلف رہی ہے۔ کہیں برقع پہنا
جاتا ہے اور کہیں صرف سر ڈھانپنے کے لیے دوپٹہ یا اسکارف، کہیں جلباب یا عبایا
پہنا جاتا ہے اور کہیں ایک بڑی چادر سے پورا جسم ڈھک لیا جاتا ہے۔ اسلام نے عورت
کو فرائض تفویض کرتے وقت حجاب کو سب سے مقدم رکھا۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اے
آدم علیہ السلام کے بیٹو اور بیٹیو! ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا ہے جو تمہارے
جسم کے ان حصوں کو چھپا سکے جن کا کھولنا برا ہے۔ (الاعراف:26)
نیز فرمایا:
"
اور مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں
اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اور اپنی سجاوٹ کسی پر ظاہر نہ کریں۔ سوائے اس
کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے۔ اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا
کریں۔اور اپنی سجاوٹ اور کسی پر ظاہر نہ کریں۔ (النور:31)
یہی وجہ ہے کہ تقریباً سوا چودہ سو سال سے اب تک مسلمانوں کی
اکثریت حجاب کی نہ صرف قائل رہی ہے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی رہی ہے۔ پھر صرف
مسلمان ہی نہیں، دوسرے معزز معاشروں اور مذاہب میں بھی پردہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔
ہندو مذہب میں اس کی اتنی پابندی تھی کہ برہمن خاندانوں کی خواتین اپنے شوہروں سے
پردہ کیا کرتیں۔ یہودی اور عیسائی مذہب بھی خواتین کو حدود میں رہنے کی تلقین
کرتے۔ لیکن تہذیب جدید کے سیلاب میں بعض پرانی رسومات و اقدار خس و خاشاک کی طرح
بہہ نکلے جن میں پردہ سر فہرست ہے۔ خواتین کو پردے سے باہر نکالنا مغرب کی معاشی و
اقتصادی مجبوری تھی کہ خانہ جنگی کے سبب مردوں کی اکثریت ہلاک یا معذور ہو گئی۔ اس
خلا کو پر کرنے کے لیے گھریلو خواتین کو میدان میں اتارا گیا۔ اس مقصد کے لیے
آزادی، مساوات اور ترقی جیسے خوش نما نعرے لگائے گئے۔ انہیں بہت سے سبز باغ دکھائے
گئے۔ جس کا مغرب کو وقتی طور پر کچھ فائدہ بھی ہوا کہ ان کی معیشت کی چکی چل پڑی۔
لیکن انہیں اس کے نتیجے میں جن مضمرات کا سامنا کرنا پڑا، اس کا حل مغربی مفکرین
کے پاس بالکل بھی نہیں ہے۔ بڑے بڑے دانش ور یہ گتھی سلجھانے بیٹھے ہیں لیکن انہیں
کوئی سرا نہیں مل رہا۔
الحمد للہ عالم اسلام ان خطرات و مضمرات سے فی الحال محفوظ ہے
لیکن جس تیزی سے جدت پسندی اسے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے خطرہ ہے یہ بھی مغرب کے اس
حسین پھندے میں جا پھنسے گا۔ مغربی مفکرین کے مطابق سب سے زیادہ محفوظ حسب نسب
مسلمان خواتین کا ہوتا ہے۔ پردے کے سبب وہ مردوں کی ہوس زدہ نظروں سے محفوظ رہتی
ہیں جس کی وجہ سے یہ ریپ جیسی لعنت اور ظلم سے محفوظ رہتی ہیں۔ جب کہ عدل و انصاف
کے ٹھیکے دار امریکہ کو ریپ کیسز کی شرح میں سب سے اوپر رکھا جاتا ہے کہ وہاں ہر
چھ میں سے ایک خاتون اس ظلم کا شکار ہو چکی ہے۔ یاد رہے!!! یہ کیسز زنا بالجبر کے
ہیں اور جن کی رپورٹ ہوئی ہے۔ جو رپورٹ کے بغیر رہ گئے یا بالرضا ہوئے، ان کا شمار
ہی نہیں ہے۔ ریپ کیسز میں سرفہرست دوسرے نمبر پر برطانیہ ہے جہاں حکومتی رپورٹ کے
مطابق ہر سال پچاسی ہزار خواتین ریپ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ تیسرے نمبر پر فرانس ہے
جو حجاب پر پابندی لگانے میں خونی حدوں کو چھو رہا ہے ۔ یہاں سال میں پچھتر ہزار
خواتین ریپ کی شکایت لے کر آتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ شرح دس فی صد ہے باقی نوے
فیصد خواتین شرم یا دیگر وجوہات کی بنا پر کیس رجسٹر ہی نہیں کرواتیں۔ اس کے بعد
بالترتیب جرمنی، کینیڈا، بھارت، ایتھوپیا اور سری لنکا آتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے
کہ ان ٹاپ ایٹ ممالک میں کوئی بھی مسلمان ملک نہیں ہے۔ اس کے باوجود اگر آپ اردو
زبان میں ریپسٹ ممالک کا ڈیٹا نکالنے کی کوشش کریں گے تو رزلٹ میں مسلمان ممالک کو
رگیدا گیا ہوتا ہے۔
حیرت بلکہ افسوس کی بات ہے کہ اس معاملے میں مسلمان ممالک کا
لہجہ شرم ناک حد تک معذرت خواہانہ ہے۔ حالانکہ ہمیں چاہیے تھا، ان ممالک سے ایسی
آزادی، مساوات اور ترقی کے نتائج کا مواخذہ کرتے، الٹا دفاعی پوزیشن اختیار کیے
بیٹھے ہیں۔ جس کی تازہ ترین دو مثالیں پاکستان میں سامنے آئیں۔ وزیر اعظم عمران
خان صاحب نے ریپ وغیرہ کی روک تھام کے لیے خواتین کو مناسب لباس پہننے کی تلقین کی
جو قرآن و سنت کے مطابق تھی۔ لیکن اس پر اتنی لے دے ہوئی کہ ان کے دوستوں کو بار
بار وضاحتیں دینی پڑیں۔ دوسری مثال پی ٹی وی کی بعض خواتین اینکرز کا عمل تھا
جنہوں نے اپنی مرضی سے حجاب اوڑھ کر سکرین پر آنا پسند کیا تو آزادی کے متوالوں نے
بھیانک الزامات، ایسے بھونڈے طریقے سے لگائے کہ وفاقی وزیر فواد چوہدری کو آکر
وضاحت دینی پڑی کہ حکومت وقت کا اس قضیے میں کوئی کردار نہیں ہے، خواتین کا ذاتی
طرز عمل ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ الزامات عائد کرنے والوں سے پوچھا جاتا "کہاں
ہے تمہارا نعرہ میرا جسم میری مرضی...؟؟؟ جس کے مطابق کوئی اپنی مرضی سے حجاب
پہننا چاہے تو تم اسے روک نہیں سکتے۔ نیز ہمارا مذہب، معاشرہ اور وطن عزیز کا
قانون اجازت بلکہ حکم دیتا ہے کہ نامحرم خواتین اپنے جسموں کو ڈھک کر رکھیں۔ جس
میں انہیں عبادت کے لیے بھی گھر کے اندرونی حصے منتخب کرنے کا حکم دیا گیا ہے،
کیسے سرعام اپنے جسم کی نمائش کر سکتی ہیں؟
حجاب کی بنا پر مسلم خواتین دور سے پہچانی جاتی ہیں۔ چنانچہ
ہر جگہ انہیں عیسائی مذہبی راہباؤں جتنا احترام دیا جاتا ہے کہ وہ بھی حجاب میں
رہنا پسند کرتی ہیں۔ یہ حجاب ہی کی برکت ہے کہ مسلم ممالک میں ابھی یہ نوبت نہیں
آئی کہ کاغذات سے والد کا خانہ ختم کرنا پڑے۔ یہاں اب بھی خواتین کا احترام باقی
ہے۔ جزوی طور پر اگر کہیں ان سے زیادتی ہوتی ہے تو وہ بڑی خبر بن جاتی ہے۔ پھر
گہرائی میں جا کر دیکھا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے یہ زیادتی بھی نہ ہوتی اگر خاتون
خود اسلامی اصولوں پر چلتی یا اسے موقع فراہم نہ کرتی۔ یہاں "می ٹو"
جیسے شرمناک ٹرینڈ میں شرکت کرنے والی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی
نہیں۔ جو ہیں وہ بھی مخصوص پس منظر رکھتی ہیں۔ ان ممالک میں خواتین کو اپنے حقوق
کی جنگ لڑنے کے لیے تنظیمیں بنانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ یہ ساری چیزیں اسلام
نے پہلے سے مقرر کر رکھی ہیں۔ غرض پانچ گز کا یہ کپڑا مسلم ممالک اور خواتین کے
لیے کسی نعمت عظمٰی سے کم نہیں ہے۔ لہٰذا بلاجھجک اور بغیر کسی خوف ملامت کے،
فوراً اسے روز مرہ زندگی کا حصہ بنالیں۔ اس بارے میں ہونے والے اعتراضات پر کان مت
دھریں کیوں کہ
عرفی تو مایندیش زغوغائے رقیباں
آواز سگاں کم نکند رزق گدا را
*
* *